ختنہ ایک خالص مسلمانی اصول اور نشانی ہے۔ بعض مذاہب میں ختنہ کا اصول اور رواج نہیں۔ جن جن مذاہب میں ختنہ نہیں ہوتا وہاں بعض ایسی بیماریاں ہیں جو ان لوگوں میں نہیں جن کا ختنہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر واچر نے ختنے کے متعلق تحقیق میں وضاحت کی ہے کہ oجن کے ختنے ہو گئے ہوں وہ شرم گاہ کے سرطان (Penis Cancer) سے بچ جاتے ہیں۔ oاگر ختنے نہ کئے جائیں تو پیشاب کی بندش اور گردے کی پتھری (Kidney Stones) کے خطرات موجود رہتے ہیں بلکہ بیشمار مریض ختنہ نہ ہونے کی وجہ سے پتھری کے مریض ہوتے ہیں۔ oختنہ سے مرد غیر ضروری شہوت اور خیالات کے انتشار سے بچ جاتا ہے۔ oبعض خطرناک بیماریوں کے جراثیم عضو خاص کے گھونگھٹ میں پھنس کر اندر ہی اندر بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے عضو خاص کا ایگزیما (Eczema) خارش اور الرجی ہو جاتی ہے۔ oعورتوں میں اس کے برے اثرات پڑتے ہیں کیونکہ یہی امراض مردوں کے ذریعے عورتوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔oآتشک (Syphilis)، سوزاک (Gonorrhea) اور خطرناک الرجی کے مریضوں میں مرض کی پیچیدگی صرف ان مریضوں کو ہوتی ہے جو ختنے کے بغیر ہوتے ہیں۔
بعض کیس ایسے دیکھنے میں آئے ہیں کہ ختنہ نہ ہونے کی وجہ سے اولاد سے محرومی ہو جاتی ہے۔ قوت باہ میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور طرفین نشاط اور سرور سے محروم رہتے ہیں جو ان کا انسانی حق ہے۔
ختنہ اور اقوام عالم
زچہ وبچہ کی صحت کے لئے ہر ملک اور قوم میں ماحول کے مطابق اور حسب ضرورت مختلف اصول وطریق اختیار کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ سے ان پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ ناف کے کاٹنے کے بعد بچے کو غسل دینا، گھٹی پلانا وغیرہ ایسے طریق ہیں جو ساری دنیا میں رائج ہیں مگر ختنہ کا رواج صرف ابراہیمی نسلوں میں پایا جاتا ہے اور وہ اسے اپنا اہم مذہبی شعار قرار دیتے ہیں۔ گو عیسائیوں نے اسے ترک کر دیا ہے۔ مگر مسلمان اور یہودی اب تک اس پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔
بعض مغربی عیسائیوں کا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی یہ رسم دنیا میں موجود تھی۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر تورات سے ظاہر ہے کہ پہلے پہل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارشاد خداوندی کے تحت اس پر اسی (80)برس کی عمر میں خود بھی عمل کیا اور خاندان کے تمام مردوں حتیٰ کہ غلاموں سے بھی اس حکم پر عمل کرایا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے دائمی عہد کی یہ ایک اہم شرط تھی جسکو آپ نے اپنی آنیوالی نسلوں میں بھی رواج دینا تھا۔ اس عہد کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے آٹھویں دن ان کے ختنے کئے گئے۔ جسے اب ان کے ماننے والے عیسائیوں نے پولوس کے اس قول کے ماتحت کہ شریعت لعنت ہے اور عہد نامہ قدیم ختم ہو چکا ہے اور اس کی یہ شرط اب غیر ضروری ہے۔ اس مفید رسم کو بالکل ہی ترک کر دیا ہے بلکہ انہیں اس سے اس قدر نفرت ہو گئی ہے کہ ان کے ڈرامہ نویس بھی اس پر پھبتیاں کستے ہیں۔ چنانچہ شیکسپیئر نے اپنے ڈرامہ اوتھیول میں ہیرو کے واقعہ خودکشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس (ہیرو) نے اپنے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا اور چلا کر کہا ”لڑکی میں نے ایک مختون کتے کا پیٹ یوں چاک کیا تھا“۔
اطباءمغرب ختنہ کی اہمیت وافادیت خوب سمجھتے ہیں لیکن عیسائی دنیا کی اس سے نفرت کے باعث عوام میں اسے رواج دینے یا اس کا مشورہ دینے سے کتراتے ہیں۔ گو بعض امراض میں جن میں اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا یہ علاج کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں طبی مشورہ کے ماتحت بعض امراض میں مریض یا کسی مضروب کے جسم میں کسی مناسب وموزوں تندرست آدمی کے خون کا داخل کرنا نہایت کارگر علاج ثابت ہوا ہے لیکن مریض کے جسم سے کسی مرض میں یا کسی حالت میں خون کا اخراج (ماسوائے پھوڑے پھنسیوں وغیرہ کے) خواہ وہ فاسد ہی کیوں نہ ہو اس کے لئے مضر خیال کیا جاتا ہے۔ دور حاضر کا ڈاکٹر مانے یا نہ مانے ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض امراض میں یونانی طریق فصد یعنی مریض کے جسم سے ایک خاص مقدار میں کسی خاص حصہ بدن سے خون نکالنا بڑا مفید اور موثر علاج ثابت ہوتا ہے۔ ختنہ کا حکم اسی طبی اصول کے ماتحت ہے اور اس عمر میں اس طرح خون کا اخراج بچے کی صحت پر بڑا اچھا اثر ڈالتا ہے اور بہت سے مخصوص مردانہ امراض کے لئے حفظ ماتقدم ہوتا ہے۔جن اقوام میں اس کا رواج نہیں ہے ان میں مائوں کو بڑی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ بچے کی اگر یہ کھال نہ کٹی ہوئی ہو تو اس کی اندرونی جانب پیشاب پسینے سے میل کچیل جم کر بعض دفعہ سوزش پیدا کرتی ہے۔ اس کا بچے کے دماغ پر اور بڑی عمر میں شوق رجولیت پر بھی اثر پڑتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں